Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 07
ہمیں آدھونی جنکشن پہنچادے گی ۔ وہاں سے ہمیں بنگور ایکسپریس ملے گی جو اڑتالیس گھنوں میں بنگلور پہنے گی ۔ بنگور سے آگے پھر بڑودہ تک کا سفر درپیش تھا۔ میں نے یہ سب کچھ سدھا کو بتادیا ۔ میں نے پیسے نکال کر حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ہم تھرڈ کلاس کے دو ٹکٹ خرید کر کیرالہ پر انت کے
آدھوئی جنکشن تک پہنچ سکتے تھے ۔
کر پہچان لے گا لیکن آبادی میں پہنچتے ہی چوکنا ہو گیا تھا۔
میں نے آدھونی تک ریل کے دو ٹکٹ خرید لئے ۔ اس کے بعد میرے پاس پندرہ روپے بیچ ۔ معلوم ہوا کہ گاڑی شام کو آئے گی ۔ ہم وہیں پلیٹ فارم پر بیٹھے رہے ۔ شام ہوئی تو میں اسٹیشن
سے باہر جا کر چاول اور اچار لے آیا جو ہم نے مل کر کھایا ۔
میرے سامنے گاڑی کا ایک طویل سفر تھا۔ مجھے کرناٹک اور سوراشٹر کے بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں سے گزرنا تھا ، وہاں خطرہ تھا کہ میں پہچان نہ لیا جاؤں ... لیکن دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ میری منزل راجستھان کی سرحد تھی ، وہاں تک پہنچنے کے لئے کرناٹک اور سوراشٹر کے صوبوں سے لازمی طور پر گزرتا تھا۔ جو بات مجھے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ آدھونی پر اترنے کے
بعد بنگلور جانے کے لئے ٹکٹ کہاں سے خریدیں گے ۔
دور سے ریل کے انجن کی سیٹی سنائی دی ۔ میں نے ریل کی پٹڑی کی طرف نگاہ دوڑائی ۔ دور ریل کے انجن کی روشنی آہستہ آہستہ قریب آ رہی تھی ۔
دہ مختصری بوگیوں والی ایک پسنجر ٹرین تھی ۔ اس کا انجن چھک چھک کرتا پلیٹ فارم پر آکر رک گیا ۔ تھوڑے سے مسافر تھے ۔ ٹرین میں کافی جگہ تھی ۔ ہم ایک ڈبے میں سوار ہو گئے ۔ تھوڑی دیر روکنے کے بعد ٹرین روانہ ہو گئی ۔ ٹرین ساری رات چلتی رہی ۔ دوسرے روز صبح آدھونی جنکشن پر پہنچ گئی۔
وہ ایک نسبتا بڑا اسٹیشن تھا ۔ ہم اسٹیشن سے باہر آگئے ۔ اور ایک جھونپڑی سے چاول خرید کر کھائے ... پر اسٹیشن کی عمارت سے ذرا دور ناریل کے درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھ کر سوچنے لگے کہ
آگے سفر کا کرایہ کہاں سے آئے گا۔
سدھا کہنے لگی ۔ " میں اپنے سانپ بیٹے کا تماشہ دکھا کر پیسے جمع کر لوں گی "۔
یہ آئیڈیا تو اچھا تھا لیکن اس میں زیادہ رقم جمع ہونے کی توقع نہیں تھی ۔ بنگور تک ہمیں ریلوے کرائے اور سفری اخراجات ملا کر کل ڈیڑھ سو روپوں کی ضرورت تھی ۔ سدھار نگنی بھی سوچ
میں پڑگئی ۔ کیونکہ سانپ کا تماشہ دکھا کر اتنی رقم جمع نہیں ہو سکتی تھی ... پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولی " چلو قصبے میں چلتے ہیں ۔ وہاں ضرور کوئی ناگ مندر ہو گا۔ میں وہاں اپنے سانپ کی پوجا کروا کے اتنی رقم
جمع کر لوں گی"۔
یہ ایک بڑا قصبہ تھا ۔ میں نے اسٹیشن پر اور اسٹیشن سے باہر پولیس والے دیکھے تھے ۔ چنانچہ میں سدھا کے ساتھ قصبے میں جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا ۔ میں نے پاؤں میں درد کا بہانہ
بناتے ہوئے کہا ۔ " تم اکیلی ہی چلی جاؤ ۔ میں یہاں تمہارا انتظار کروں گا "۔ سدھا رنگنی نے ناراضگی سے مجھے دیکھا اور قصبے کی طرف چل پڑی ۔ اس کے جانے کے
بعد میں درختوں کے پیچھے اس طرح ٹیک لگا کر بیٹھ گیا کہ اسٹیشن کی طرف سے آنے والے کی نظر مجھ پر نہیں پڑ سکتی تھی ۔ بنگلور ایکسپریس ، رائے پور شہر کی جانب سے وہاں دن کے سوا بجے پہنچتی تھی ۔ سدھا رنگنی کو گئے جب ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تو مجھے تشویش ہوئی ، کہیں وہ کسی مشکل میں نہ
پھنس گئی ہو ۔ کہیں کسی نے اس کے پاس لعل دیکھ کر اسے اغوا نہ کر لیا ہو ... میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے لگے ۔ پونے دو گھنٹے بعد سدھا رنگنی مجھے ریلوے پھاٹک کی طرف سے آتی دکھائی دی ۔ اس کے ہاتھ میں کیلے کے پتوں میں لپٹی ہوئی کوئی چیز تھی ۔ میرے قریب پہنچ کر پتوں کا پیکٹ ، میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی " لو رکھو ... میرے پتی دیو جلیبیاں کھاؤ ۔۔۔
روپوں کا کچھ بنا ؟" میں نے بے تابی سے پوچھا۔
کیسے نہ بنتا ... ناگ مندر میں جاکر سدھار تگنی خالی ہاتھ واپس نہیں آسکتی۔ یہ دیکھو پورے دو سو روپے ہیں ۔ " اس نے ساڑھی کے پلو سے سارے نوٹ نکال کر میرے حوالے کر دیئے ۔
" تم نے تو کمال کر دیا ، سدھا !"
وہ بولی " اگر میں کچھ دیر اور ٹھرتی تو اس سے بھی زیادہ پیسے جمع ہو جاتے ... لیکن ہمیں تو بڑودہ جا
کر لعل فروخت کرنا ہے ۔ اب یہ پیسے میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے "۔ ہم اسی وقت ، ریلوے اسٹیشن پر آگئے ۔ میں نے بنگلور سٹی کے لئے تھرڈ کلاس کے دو ٹکٹ
خرید لئے اور پلیٹ فارم پر ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے ۔ بنگلور ایکسپریس لیٹ تھی ۔ بہر حال دو بجے وہ ہمیں لے کر روانہ ہو گئی ۔ وہ دن گزر گیا، دوسرا
دن نکل آیا ... پھر وہ بھی گزر گیا اور رات آگئی ۔ اسٹیشن پر اسٹیشن اور شہروں پر شہر گزرتے گئے ۔ وہ رات بھی ریل گاڑی میں بیت گئی ۔ خدا خدا کر کے بنگلور سٹی کا اسٹیشن آیا ۔ وہ بہت بڑا ریلوے اسٹیشن تھا ۔ میں وہاں بہت محتاط ہو گیا تھا۔ میں سدھا کے ساتھ تھرڈ کلاس ویٹنگ روم میں جاکر مسافروں کے پیچھے بیٹھ گیا ۔ وہیں ہم نے کھانا کھایا ۔ سدھا رنگنی بڑی خوش تھی کہنے لگی ... میں بنگلور سے ساڑھیاں
خریدوں گی"۔
0 Comments