Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 09
![]() |
Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 09 |
قیمتی لعل ابھی تک اس کے پاس تھا۔ میری نظریں ، پولیس یا سی ۔ آئی ۔ ڈی والوں کو تلاش کے کر رہی تھی ۔ وہ کوئی پولیس وال تو نہیں تھالیکن سی آئی ۔ ڈی والا کہیں بھی کبھی بھی لباس میں موجود ہو سکتا تھا۔ میری تجربہ کار نگاہیں اپنے اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں ۔ ابھی تک مجھے کسی طرف سے خطرے کی بو محسوس نہیں ہوئی تھی ۔۔
بنگلور سے ہم پھر گاڑی میں سوار ہو گئے اور بلور اورنگ آباد کولہا پور اور سورت سے ہوتے ہوئے گجرات کاٹھیا واڑ کے دوسرے بڑے شہر بڑودہ پہنچ گئے ۔ وہ بھی ایک بڑا ریلوے اسٹیشن تھا ۔ شہر بھی
بہت بڑا تھا، وہ ہی ہماری منزل تھی ۔ میرے پاس اب صرف پندرہ روپے باقی رہ گئے تھے ۔ بڑودہ اسٹیشن پر مجھے ملٹری پولیس کے سپاہی بھی دکھائی دیئے ۔ میں زیادہ محتاط ہو گیا ۔ سدھا رنگنی میرے ساتھ چلتے ہوے بولی ۔
۔ " رکھو! آخر ہم یہاں پہنچ ہی گئے ۔ رکھوا ہمیں کتنے روپے مل جائیں گے ؟ ایک جوڑا ساڑھی کا تو میں یہاں سے ضرور خریدوں گی"۔ ہم پلیٹ فارم کے تھرڈ کلاس والے گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ میں بڑی چوکسی کے
ساتھ چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ گیٹ پر ٹکٹ کلکٹر کھڑا باہر جانے والوں سے ٹکٹ لے رہا تھا ... لعل کے نحوست کا وقت آگیا تھا۔
میں آگے آگے تھا ، ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھا ۔ سدھار نگنی ، میرے پیچھے پیچھے تھی ۔ میں
ٹکٹ دے کر گیٹ سے نکل آیا تو سدھانے ٹکٹ کلکٹر کی طرف اپنا ٹکٹ بڑھایا ۔ اچانک ایسا ہوا کہ سدھا رنگنی کا چہیتا بیٹا کالا سانپ اس کی ساڑھی سے نکل کر ایک بھیانک پھنکار کے ساتھ ، ٹکٹ کلکٹر پر حملہ آور ہوا ۔ سدھارنگنی نے کھینچ کر اسے روکنا چاہا مگر اس دوران میں سانپ اس کے ہاتھ پر ڈس چکا تھا۔ سانپ شاید یہ سمجھا تھا کہ ٹکٹ کلکٹر اس کی ماں پر حملہ کرنا چاہتا ہے ۔
۔ ٹکٹ کلکٹر چکرا گیا ۔ مگر اس نے دوسرے ہاتھ سے سانپ پر وار کیا ۔ سانپ اچھل کر سدھا کی گردن سے نیچے گر گیا ۔ وہاں شور مچ گیا۔ لوگ سانپ کو مار نے دوڑے ۔ سانپ اسٹیشن کے ہال کی . طرف بھاگا ۔ سدھار نگنی چیختی چلاتی اپنے سانپ بیٹے کے پیچھے بھاگی ۔ ٹکٹ کلکٹر وہیں گر گیا تھا ۔ مجھے خیال ہی نہ رہا کہ سانپ کا منکا میری جیب میں ہے ۔ میں بھی گھبراہٹ میں سدھا کے پیچھے لپکا ... اور
پولیس کے تین سپاہی ہمارے پیچھے دوڑے ۔ اور
اس سانپ کا زہر اس قدر تیزتھا ٹکٹ کلکٹر کا جسم سبز ہو کر سیاہ پڑنے لگا۔ میں
سدھارنگنی کو پکار رہا تھا اور وہ اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے اسے آوازیں دے رہی تھی ... سانپ نے اپنے پیچھے اتنے ہجوم کو دیکھا تو گھبرا کر لوہے کے گارڈر پر چڑھا اور اور چھت کی آہنی کڑیوں میں جا کر
غائب ہو گیا ۔ ہمارے پیچھے شور کیا گیا۔ " ٹکٹ باہو مرگیا .. ٹکٹ بابو سانپ کے کاٹنے سے مرگیا۔ اچانک
مجھے اپنے سانپ کے منکے کا خیال آیا .. لیکن وقت گزر چکا تھا۔ پولیس نے سدھارنگنی کو پکڑ لیا اور اسے گسیٹ کر پیچھے ، ٹکٹ چیکر کی لاش کے پاس لئے آئے ۔ سدھارنگنی سمی ہوئی تھی ۔ اس نے ٹکٹ چیکر کی لاش دیکھی تو روتے ہوئے بولی " اسے میں نے نہیں مارا میں بے گناہ ہوں "۔ پولیس کے ایک سپاہی نے سدھارنگنی کے ہتھکڑی ڈال دی اور بولا ۔ " یہ تمہارے سانپ
سے مرا ہے ۔ اس کا فیصلہ عدالت میں ہو گا "۔ سدھارنگنی نے چیخ کر مجھے پکارا " رکھو ... چی دیو ! تم کہاں ہو ؟ مجھے بچاؤ "۔ میں لوگوں کے ہجوم میں دو آدمیوں کے کندھوں کے اوپر سے سدھارنگنی کو پولیس کے حراست میں دیکھ رہا تھا ۔ یہ سب کچھ اس قدر اچانک ہو گیا تھا میں بھونچکا ہو کر رہ گیا تھا ۔ جب سدھا
نے مجھے آواز دی تو میں نے دیکھا ، اس کی کیسری آنکھیں خوف زدہ تھیں اور وہ متوحش نظروں سے مجھے ہجوم میں تلاش کر رہی تھی ۔ میں اس کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ وہیں جم کر رہ گیا۔ انڈین ملٹری پولیس کے دو وردی پوش سپاہی تیز تیز قدم اٹھاتے ہجوم کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے ۔ اب اگر میں قدم آگے بڑھاتا تو وہ موت کی طرف میرا قدم ہو تا ... سدھارنگنی نے خود ٹکٹ چیکر کو نہیں مارا تھا ، اس
کے سانپ نے اسے ہلاک کیا تھا سدھارنگنی کو تھوڑی سی قید ہو سکتی تھی میں اگر ملٹری پولیس کے ھاتھ چڑھ جاتا تو میری موت یقینی تھی سدھا کو ۔ چھوڑ دینے پر میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا ، لیکن میں مجبور تھا۔ میں بار بار
۔ لوگ جائے واردات کی طرف جارہے تھے
میں نے وہیں اپنا سر نیچے کر لیا اور ہجوم سے نکل کر تیز تیز قدموں سے اسٹیشن کی لابی سے باہر آگیا ۔ یہاں رکشے ٹیکسیاں اور گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ ہر کوئی ٹکٹ چیکر کی موت کے بارے میں گفتگو کر رھا تھا
میں یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ سدھا رنگنی نے خون نہیں کیا۔ اسے صرف دو تین سال قید ہوگی پھر وہ رہا کر دی جائے گی لیکن میرا ضمیر مجھے برابر کچوکے لگا رہا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ تھانے میں تلاشی لیتے وقت سدھا کے لباس سے لعل پر آمد ہو جائے گا اور پولیس اسے اپنی تحویل میں لے لے گی۔ ہو سکتا ہے ، پولیس والے ہی اسے خرد برد کر لیں یا وہ حکومت کے خزانے میں پہنچ جائے۔ بہر حال اب مجھے اپنی فکر تھی ۔ کیونکہ سدھارنگنی پولیس کو یہ بیان ضرور دیتی کہ اس کا ایک ساتھی بھی ہے ، جس کا نام رکھو ہے اور اس کا حلیہ اس طرح کا ہے ۔ اگر ایک بار میں تھانے پہنچ گیا تو میرا
پاکستانی جاسوس ہونے کا راز طشت از بام ہو جائے گا۔ پولیس کے پاس میرا ریکارڈ اور تصویر موجود تھی ۔ پاکستان ہونے کار از طشت ازبام ہو ۔ میں نے اسٹیشن کی عمارت سے نکل کر اپنے عقب میں دیکھا ، ہجوم پیچھے ہٹ رہا تھا ۔ شاید
سیدھا کو تھانے لے جایا جا رہا تھا ۔ میں نے دل ہی دل میں سدھا سے معافی مانگتے ہوئے اسے الوداع کہا
اور تیز تیز قدموں سے چلتا کشادہ بازار کے فٹ پاتھ پر لوگوں کے ہجوم میں گم ہو گیا ۔
0 Comments