Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 10

 Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 10



 Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 10

بڑودہ شر میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔ میری جیب میں اس وقت صرف آٹھ روپے تھے ، گلے میں مقدس نقش تھا اور دوسری

 جیب میں سدھارنگنی کا دیا ہوا سانپ کا منکا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر وہ قیمتی لعل منحوس ثابت ہوا ۔ اس نے ایک طرف ہم دونوں کو ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا تھا اور دوسری طرف سدھارنگنی کو اقدام قتل کے جرم میں تھانے پہنچا دیا تھا۔ مجھے سدھا کے چہیتے سانپ بیٹے پر بھی غصہ آرہا تھا۔ سدھارنگنی کے ساتھ اپنے ایکٹ کے اس ورد ناک انجام پر مجھے بہت افسوس تھا ... مگر میں کیا کر سکتا تھا۔ زندگی کے اسٹیج پر ہر اداکار اپنا اپنا رول کر رہا تھا۔ ہو سکتا تھا کہ میری جان بچانے کے لئے سدھا اپنی زندگی قربان کر ڈالتی لیکن مجھے اعتراف ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا تھا ۔ اسے آپ میری خود غرضی سمجھ لیں ، مجھے اپنی جان سدھارنگنی سے زیادہ پیاری تھی یا یہ سمجھ لیں کہ میں اپنی زندگی کو اپنے ملک وقوم کی امانت سمجھ رھا تھا

فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے جب میں کافی دور نکل گیا تو آگے ایک کشادہ چوک آ گیا ۔ دن کا پہلا پہر ۔ سڑکوں پر کافی ٹریفک تھی ۔ دکانیں ہر قسم کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی ۔ کپڑے کی دکانیں بہت تھی 

 میں نے دھوتی اور کرتہ پہن رکھا تھا لیکن میرے لباس کی حالت بہت خستہ تھی ۔ میں نے

بنگلور اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کرتہ دھویا تھا لیکن اب وہ دشوار گزار جنگلوں کے سفر کے بعد جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا ۔ میرے سب سے بڑے دو مسئلے تھے ۔ ایک یہ کہ کہیں سے کچھ رقم حاصل کی جائے، دوسرا یہ کہ لباس تبدیل کیا جائے لیکن سب سے پہلے میں اس شہر کو خیر باد کہنا چاہتا تھا ۔

کولہا پور کے ریلوے اسٹیشن پر میں نے نقشے کا جو چارٹ دیکھا تھا ، اس کے حساب سے مجھے . بڑودہ سے آگے احمد آباد جانا تھا .. وہاں سے راجستھان میں داخل ہو کر اودھے پور پہنچتا تھا۔ اور اودھے سے آگے ریگستان تھا پھر پاکستان کا بارڈر شروع ہو جاتا تھا ۔ مجھے اسی ریگستان سے بھارت کا بارڈر کراس

کر کے ، پاکستان میں داخل ہونا تھا ... یہ کوئی اتنا آسان کام نہ تھا ... مگر مجھے یہ کام ہر قیمت پر کرنا تھا۔ بڑودہ سے احمد آباد اور احمد آباد سے اودھے پور تک ریل جاتی تھی ۔ اس کے بعد صحرا کا سفر شروع ہو جاتا تھا ۔ بڑودہ سے احمد آباد تک ریل میں سفر کرنا خطر ناک تھا ۔ کم از کم مجھے یہی شبہ تھا کہ

پولیس کو میرے بارے میں پتہ نہ چل گیا ہو ۔ حالانکہ اس کا امکان ، سدھا کے بیان کے بعد بہت ہی کم تھا ۔ پھر بھی میں اپنے آپ کو بدترین حالات کے مقابلے کے لئے ہر گھڑی تیار رکھنا چاہتا تھا ۔۔

دو باتیں میرے ساتھ بہت اچھی ہوئی تھیں ۔ پہلی بات یہ کہ پہاڑوں اور جنگلوں کے مصیبت سے پر سفر نے میرے گورے رنگ کو کافی سنولا دیا تھا ۔ دوسری بات یہ کہ مجھے تامل زبان پر کافی عبور حاصل ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں اپنے آپ کو بڑی آسانی سے قابل ثابت کر سکتا تھا۔ انہی خیالات میں غلطاں، چوک کراس کر کے دوسری سڑک پر نکل آیا ۔ یہاں ایک اسٹاپ پر بس کھڑی تھی ۔ اس کا رخ

اسٹیشن کی مخالف سمت میں تھا۔ میں بغیر کچھ سوچے سمجھے بس میں سوار ہو گیا کہ اور کچھ نہیں تو ریلوے اسٹیشن ہی سے دور نکل جاؤں گا ۔۔ بس مسافروں سے بھری ہوئی تھی اور لوگ بہت باتیں کر رہے تھے ۔ عورتیں بھی مردوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں ... پھر بس شور مچاتی ایک طرف روانہ ہو گئی ۔ میں نے بس میں داخل ہوتے ہی اس کی دیوار پر لگے ، روٹ کے چارٹ پر نگاہ ڈالی تو وہاں آخری اسٹاپ کے نقطے پر انگریزی میں ٹاور لکھا تھا ۔ چنانچہ میں نے ٹاور کا ٹکٹ لے لیا جو دو روپے کا تھا۔ ٹاور پہنچ کر کہاں جاؤں گا یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ ٹاور پہنچ کر میں بس سے اتر گیا۔ مجھے بھوک ستانے لگی تھی۔ بازار میں ایک جگہ لمبی سی دکان کے باہر کچھ پرانی کاریں اور ایک ٹریکٹر کھڑا تھا۔ دو تین مستری وہاں کام کر رہے تھے ۔ دکان کے اوپر

گجرات اور ہندی میں گجراتی کیسر بھا گیراج لکھا تھا ۔ میں سیدھا گیراج کے مالک کے پاس چلا گیا ۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کا موٹے پیٹ والا زرد رو گجراتی تھا جو کاؤنٹر کے پیچھے اونچی گدی پر بیٹھا کسی کو فون کر رہا تھا اور درمیان میں نظریں اٹھا کر میری طرف بھی دیکھ لیتا تھا ... پھر فون بند کر کے مجھ سے مخاطب ہوا "

تھے کون چھے رہے ؟ کیا چاہئیے بولو ؟"

میں نے قریب جا کر کہا " سیٹھ جی ! میں تامل ناڈو کا رہنے والا ہوں ۔ یتیم ہوں ، کوئی سنگی ساتھی نہیں ۔ چاکری کی تلاش ہے ، کوئی کام مل جائے تو بڑی سیوا کروں گا "۔

سیٹھ نے ترچھی نظر سے مجھے دیکھا اور نفرت سے ہاتھ جھٹک کر بولا ۔ ”ابے ، چلو آگے " لڑکے ! یہ کوئی دھرم شالا نہیں ہے "

اب میں نے مقدس نقش سے کام لینے کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے کلمہ شریف پڑھ کر ایک نگاہ

اپنے گلے میں لٹکے ہوئے نقش پر ڈالی پھر سیٹھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دل میں کہا۔ تم مجھے

ملازم رکھو ، فورا ۔ جب میں نے اس سے نظریں ہٹائیں تو سیٹھ کی کایا پلٹ ہو چکی تھی۔ اس کا لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ سر پر

 رکھی ہندوانہ ٹوپی اتار کر اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا۔ " ارے تو گھر پر کام کرے گا 

بول ؟"

ہاں سیٹھ صاحب ! کیوں نہیں کروں گا ۔ "

سیٹھ نے اپنے کسی نوکر کو آواز دی اور کہا ” دھنیا ! ابے اسے حویلی پر لے جا۔ سیٹھانی جی سے کہنا اسے کھیت پر لگا دے ۔ ارے جا' میرا منہ کیا تک رہا ہے "۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا ” ارے تیرا

نام کیا ہے ؟"

راتھن ...." میں نے جلدی سے کہا۔ اس وقت میں نام میرے ذہن میں آیا تھا۔

ٹھیک ہے ... جا دھنیا ! اسے لے جا ۔"

coming soon next part 


Post a Comment

0 Comments