Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 07

 

Kashmir ke Sarfarosh
 Ek commando ke story urdu stories part 07


تھوڑی دیر کی محنت کے بعد ہم نے اس سوراخ کو اتنا بڑا  کرلیا کہ جھک کر اس میں داخل ہو سکتے تھے ۔ وہ کوئی غار نہیں بکہ ایک کھوہ تھی ، جس میں سامنے والی دیوار کے چھوٹے سے محراب میں لکڑی کی ایک چھوٹی صندوقچی رکھی تھی۔ ہم یہ صندوقچی نکال کر باہر لے آئے ۔ صندوقچی کی لکڑی بالکل سیاہ پڑ چکی تھی اور اس کا ڈھکنا میخوں سے ٹھک ہوا تھا۔ اس میں کیا خزانہ ہو گا سدھا " میں نے کہا ۔ " یہ تو بالشت بھر کی صندوقچی ہے "۔ سدھا کے چہرے پر بھی مایوسی سی پھیلی ہوئی تھی ۔ اس نے صندوقچی میری طرف

بڑھاتے ہوئے کہا۔ " تم ہی اسے توڑو "۔ میں نے صندو قیچی کی ایک درز میں خنجر کی نوک ڈالتے ہوئے کیا ۔ " اگر اس میں کوئی معمولی شے ہوتی تو اسے یہاں دہانے کی کیا ضرورت تھی اور پھر یہ خزانے کا سانپ اس کی حفاظت کیوں

کررھا تھا

" اچھا اسے کھول کر تو دیکھو ۔ " سدھا بولی ۔

میں نے صندو قیچی کا ڈھکنا توڑ دیا ۔ اس میں ایک چرمی تھیلی رکھی ہوئی تھی۔ میں نے تھیلی

کو کھولا تو اس میں سے کوئی گول سی چیز ، سبز رنگ کے کمخواب کے رومال میں لپٹی ہوئی نکلی ۔ میں نے

رومال کو کھولا تو ہماری آنکھیں چکا چوند ہو گئیں ۔ میرے ہاتھ میں قندھاری انار سے بھی زیادہ گرے سرخ رنگ کا ایک چمک دار شفاف اور بے داغ لعل رکھا ہوا تھا ۔ اس کا سائز ایک چھوٹی ناشپاتی جتنا تھا۔

سدھارنگنی  نے اپنے سانپ بیٹے کو گلے میں ڈالا اور خوشی سے اچھل کر بولی ۔ " رکھو! یہ تو بڑا لعل ہے ۔ اسے بیچ کر ہم ایک شاندار محل خرید سکتے ہیں ۔ لاؤ " مجھے دکھاؤ "۔

قیمتی میں نے لعل اسے دے دیا اور وہ اسے الٹ پلٹ کر غور سے دیکھنے لگی۔ میں نے بھی اس کا بغور جائزہ لیا ۔ اس لعل میں نہ تو کوئی سوراخ تھا اور نہ کسی جگہ کوئی نشان یا داغ تھا ... لعل بہت قیمتی معلوم ہوتا تھا۔ میں نے بزرگوں سے سنا اور پڑھا تھا کہ اس قسم کے لعل اکثر منحوس ہوتے ہیں۔ جس کے پاس ایسا لعل ہو ، وہ اس کی نحوست کی زد میں آجاتا ہے ۔ کوہ نور ہیرے کی مثال میرے سامنے تھی۔

شادر نادر ہی یہ قیمتی پتھر کسی کو راس آتے ہیں ۔

سدھا! بہتریہی ہے کہ ہم اس لعل کو اسی کھوہ میں واپس پھینک دیں ۔ " میں نے خدشے کا اظہار کیا

یہ کیا کہ رہے ہو ، رگھو ؟" سدھا حیرت سے بولی ۔ "کبھی کوئی گھر آئی لکشمی کو بھی دھتکار تا ہے ؟ میں یہ لعل بیچ کر محل بنواؤں گی ۔ وہاں اپنے ماتا پتا کو تخت پر بٹھاؤں گی ۔ تم میرے راجہ ہو گے اور

میں تمہاری رانی "۔

سدھار نگنی  نے لعل کو اسی رومال میں لپیٹ کر اپنی ساڑھی میں چھپالیا۔ نہ جانے کیوں میرا

دل کہہ رہا تھا کہ یہ لعل سدھا کو راس نہیں آئے گا... اور اس پر کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور آئے گی۔ میں نے اسے سمجھانا چاہا لیکن وہ ایک ضدی لڑکی تھی۔ وہ ایک بار جو فیصلہ کر لیتی تھی اس پر اڑ جاتی تھی۔ قیمتی لعل ، اس نے اپنے پاس محفوظ کر لیا اور ہم ایک بار پھر جنگل میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔

تیسرے پر جنگل ختم ہو گیا ۔

اب ہمارے سامنے ایک میدان تھا جہاں کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ اور خود رو جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھی۔ اسی راستے میں ایک خشک نالا آیا ۔ اس نالے سے گزر کر ہم دوسری طرف پہنچے تو ریل کی پڑی نظر آگئی ۔ ہم پٹڑئ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے سدھارنگنی  ، قیمتی لعل پا کر بے حد خوش تھی ۔ رکھو! تمہارے خیال میں اس کے کتنے روپے مل جائیں گے ۔ ایک محل کتنے روپوں میں

بن جاتا ہے ۔ میں اپنے گاؤں میں دریا کے کنارے محل بنواؤں گی ۔ میرے ماتا پتا بہت خوش ہوں گے ۔

رکھو ا ہم بڑی غریبی میں دن گزارتے ہیں ۔ "

میں نے اسے بتایا کہ یہ لعل ، بڑودہ کا کوئی کروڑپتی جو ہری ہی خرید سکتا ہے۔ ہمیں یہ لعل لے کر بروڈہ جاتا ہو گا۔

وہ حیرت و مسرت کے ملے جلے تاثر سے مجھے دیکھنے لگی ۔ " کیا ہمیں اس لعل کے ایک لاکھ روپے مل جائیں گے ؟"

میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے ، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک بار پھر اسے سمجھایا "سدھا ! مجھے تم سے ہمدردی ہے ، میں نے نہیں چاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے ، تم پر کوئی آفت آئے ۔ اس لئے میرا کہا مانو اور اس لعل کو یہیں کہیں پھینک دو "۔۔

سدھا نے کندھا جھٹک دیا اور اپنی کیسری آنکھیں سکیٹر کر بولی ۔ " رگھو ! تم میرے دشمن کب سے ہو گئے ؟ کیا تم مجھے رانی بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے ؟ کیا تم مجھ سے جلنے لگے ہو ؟"

میں سمجھ گیا کہ یہ لڑکی اپنی ضد سے باز نہیں آئے گی پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے ، یہ لعل ، سدھا کو راس آجائے ۔

تھوڑی دیر بعد ہم ، سری رنگم کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے ۔ وہ ایک چھوٹا سا دیہاتی اسٹیشن تھا ۔ پلیٹ فارم ویران پڑا تھا ۔ صرف اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کے آگے پڑی پیچ پر ایک بوڑھا اپنی بڑھیا

کے ساتھ بیٹھا ، بیڑی پی رہا تھا۔

سدھانے پلیٹ فارم کے نلکے پر جا کر ہاتھ منہ دھویا پانی پیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گئی ۔ ہم مشورہ کرنے لگے کہ ریل کے کرائے کا کیا بنے گا... میرے پاس جو پیسے تھے ، ان سے ہم زیادہ سے زیادہ

ریل میں دو تین سو میل تک سفر کر سکتے تھے ۔

میں نے جا کر ٹکٹ بابو سے معلومات حاصل کیں ۔ معلوم ہوا کہ سری رنگم سے ایک گاڑی

coming soon next part 


Popup Iframe Example

Post a Comment

0 Comments