Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 07

 

Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 07



                      Kashmir ke Sarfarosh Ek commando ke story urdu stories part 07



 Ek commando ke story

 ہم خنجروں کی مدد سے اس جگہ کے پتھر اور مٹی اکھاڑنے لگے ۔ بہت جلد وہاں ایک سوراخ بن گیا۔ سوراخ میں سے دن کی

 روشنی اندر گئی تو وہاں سے پھنکار کی ایسی آواز آئی جیسے کسی نے آسمان کی طرف ہوائی چھوڑ دی ہو ... میں پیچھے ہٹ گیا ۔ پھنکار کی آواز سن کر کالا سانپ سوراخ کی طرف لپکا لیکن سدھارنگنی نے اسے راستے ہی میں دبوچ کر اٹھا لیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی ۔ " نہیں ، میرے بیٹے ا تم اندر نہیں جاؤ گے ۔ تمہارے دشمن کا مقابلہ ہم کریں گے ۔ ہم اسے ہلاک کر

دیں گے ۔ " سانپ سیدھا کی کلائی سے لپٹا غضبناک انداز میں پھنکار رہا تھا ، بل کھا رہا تھا اور نیچے اترنے کے لئے مچل رہا تھا ۔ سدھانے اسے اپنی ساڑھی کے پلو میں باندھ کر کندھے سے لٹکا لیا اور خنجر ہاتھ میں تول کر بولی ۔ " رگھو ! تم یہیں ٹھرو میں خزانے کے سانپ کو مارتی ہوں ۔ فکر مت کرو۔ اس کا زہر مجھ پراثر نہیں کر سکے گا۔"

میں حیرت میں ڈوبا سدھا رنگنی کو تک رہا تھا ۔ وہ اس وقت مجھے جنوبی ہند کی کوئی جادو گرنی لگ رہی تھی ۔ وہ مجھے حیرت زدہ چھوڑ کر ٹیلے کی دیوار کی طرف بڑھی ، جہاں سوراخ سے پھنکارنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے سدھا رنگنی سے کہا۔ ”بھگوان کے لئے واپس آجاؤ ۔ ہمیں خزانے کیضرورت نہیں 

سدھانے وہیں سے جواب دیا " رگھو ! اب مجھے آواز نہ دینا۔ اگر تمہیں ڈر لگ رہا ہے تو چلے جاؤ ۔ میں اپنے بیٹے کے لئے اس سانپ کو ہلاک کرنے جا رہی ہوں "۔

اس نے سوراخ میں ہاتھ ڈال کر فورن نکال لیا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سبز رنگ کا ایک سانپ اپنا پھن پھیلائے ، پھنکارتا ہوا سوراخ کے دہانے پر نمودار ہوا ۔ وہ اس قدر غیض و غضب کے عالم میں تھا کہ ڈسنے کے لئے بار بار پھن اٹھا رہا تھا ۔ سدھا رنگی ایک ہاتھ میں خنجر تولتی ، دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا رہی تھی ۔ اس کے کندھے پر ساڑھی میں بندھا ہوا سانپ بری طرح مچل رہا تھا ۔ سدھا

رنگنی نے اپنی کیسری آنکھیں سانپ کی آنکھوں میں ڈال رکھی تھی۔ وہ ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی تھی ۔ تیسرے قدم پر وہ سانپ کے قریب پہنچ گئی پھر اس نے ایک دم سے سانپ کی گردن پر ہاتھ مارا ۔ سانپ نے اس کی کلائی پر ڈس لیا لیکن اس دوران میں سدھارنگنی 

 سانپ کو گردن سے دبوچ کر سوراخ سے باہر کھینچ لائی تھی ۔ سانپ پانچ چھ فٹ سے بھی لمبا تھا۔ میں نے گھبرا کر کہا۔ "سدھا !تمہیں سانپ نے ڈس لیا ہے ۔"

سدھار نگن نے خنجر سے سانپ کی گردن کاٹ دی اور سانپ کا کٹا ہوا سر نیچے پھینک دیا .... پھر تیزی سے ساڑھی کا پلو کھول کر اپنے سانپ بیٹے کو نکال لیا ۔ اس کا سانپ بیٹا سبز سانپ کی سر بریدہلاش پر ٹوٹ پڑا۔

میں نے سدھا کی کلائی پکڑلی۔ جہاں سانپ نے ڈسا تھا، وہاں سیاہ خون کے دو قطرے کالے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے .... سدھا ان قطروں کو غور سے دیکھ رہی تھی ... پھر اس کا سیاہ جسم ہوئے ہوئے لرزنے لگا۔ میں پریشان ہو گیا ۔ میں نے اسے تھامنا چاہا تو اس نے ڈانٹ کر کہا۔ " رکھو !

مجھے ہاتھ نہ لگانا ۔ میرا خون ، سانپ کے زہر کا توڑ کر رہا ہے "۔ میں اپنی جگہ ساکت ہو کر اس کی کلائی پر خون کے چمکتے قطروں کو دیکھنے لگا جو آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے .... پھر دونوں قطرے مل کر ایک قطرہ بن گئے اور قطرہ پھولنے لگا۔ سدھارنگنی کے جسم نے اب لرزنا بند کر دیا تھا مگر اس کی کیسری آنکھوں سے جیسے گرم گرم شعاعیں نکل رہی تھیں .... چند لمحوں بعد اس نے کمزوری آواز میں کہا۔ " بس اب سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ میری کلائی پر موجود خون کا یہ قطرہ ، پتھر بن کر گرنے ہی والا ہے "۔

کالے خون کا قطرہ اب ایک چھوٹے پیر کے سائز کا ہو گیا تھا پھر اچانک وہ لڑھک کر نیچے گر پڑا ۔ سدھارنگنی نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی ۔ " رکھو ! خزانے کا سانپ ، دنیا کا سب سے زہریلا سانپ ہوتا ہے ۔ اپنے بیٹے کی وجہ سے میرے خون میں ایسا تریاق پیدا ہو گیا ہے کہ مجھ پر کسی سانپ کے زہر کا اثر نہیں ہو سکتا"

" کیا اب میں تمہیں ہاتھ لگا سکتا ہوں ' سدھا ؟" میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ بھگوان کی دیا ہے ' رکھو ! تم کو بھی اپنی پتنی سے پریم ہوا ۔ اب تم مجھے ہاتھ لگا سکتے ہو۔ تمہیں کچھ نہیں ہو گا ۔"

میں نے بے اختیار سدھار نگنی کو ہاتھ لگا لیا ۔ اس کے سانپ بیٹے نے خزانے کے سانپ کا سر منہ میں ڈال رکھا تھا اور اسے نگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد سدھا بولی " چلو خزانہ نکالتے ہیں لیکن نہیں ، تم اسی جگہ ٹھرد"۔ پھر اچانک اسے کچھ یاد آگیا ۔ وہ نیچے بیٹھ کر گھاس ٹٹولنے لگی اور پھر گھاس میں سے کچھ نکال کر اٹھ کھڑی ہوئی پھر اسے ہتھیلی پر رکھ کر میرے آگے کرد. بولی " رکھو! یہ میرے خون کا پھولا ہوا قطرہ تھا جو اب پتھر بن چکا تھا ۔ وہ کا ایک بہت ہی قیمتی منکا ہے ۔ یہ تم اپنے پاس رکھ لو ۔ کسی کو کیسا ہی زہریلا سانپ کیوں نہ کاٹ لے یہ منکا سانپ کے دانتوں کے نشان پر رکھ دیتا یہ سارا زہر چوس کر پھول جائے گا... پھر جب یہ اپنے آپ نیچے گر پڑے تو اسے اٹھا کر نچوڑ لینا' یہ پھر پتھربنہ 

جائے گا رگھو میرے راجہ ا یہ میری محبت کا ایک انمول تحفہ ہے "۔۔ میں نے سانپ کا منکا لے کر سدھا کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کے چہرے پر ایسی روشنی سی جھلک اٹھی جو میں نے اس سے پہلے اس کے چہرے پر نہیں دیکھی تھی ۔ ہم تیزی سے دیوار کے سوراخ کی

طرف بڑھے اور اپنے اپنے خنجروں کی مدد سے دیوار کھودنے لگ

Post a Comment

0 Comments