Kashmir ke Sarfarosh urdu stories part 5
آسان تھا اور آبادی نہ ہونے کی وجہ سے پہچان لئے جانے کا خطرہ بھی نہیں تھا ۔۔ میں نے جیب سے پیسے نکال کر گنے کل ساتھ رو پے رہ گئے تھے اور یہ پیسے سوراشٹر کے کسی شہر یک پہنچنے کے لئے کافی نہیں تھے ۔ بغیر ٹکٹ سفر کرنے میں اس بات کا ڈر تھا کہ اگر پکڑا گیا تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ میں سوچنے لگا کہ ریل کے کرائے اور دوسرے کھانے پینے کے اخراجات کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے ۔ کیونکہ سوراشٹر کے شہر بڑودہ تک ریل کا کم از کم چار روز کا سفر تھا اور خدا جانے ہمیں کہاں کہاں سے ریل بدلتی تھی ۔ سدھا رنگی کے ماں باپ کا گاؤں دریائے چمبل کے کنارے کہیں واقع تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ کبھی کبھی وہ اپنے پتا کے ساتھ بیل گاڑی میں بیٹھ کر کھر پا نام کے ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن پر جاتی تھی ، جہاں سے وہ ریل گاڑی میں ایک رات اور ایک دن کے بعد
بڑودہ پہنچتے تھے ۔
یہ سب باتیں میرے ذہن میں تھیں اور اس وقت مجھے سب سے زیادہ یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ اتنے لمبے سفر کے لئے کرائے کی رقم کہاں سے آئے گی ۔ آخر میں نے سوچا کہ سدھا سے کہوں گا کہ وہ سری رنگم ریلوے اسٹیشن کے آس پاس گاؤں میں اگر کوئی ناگ کی پوجا کرنے والا قبیلہ آباد ہو تو وہاں سے کچھ رقم نذرانے کے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔
اس وقت مجھے سدھا کے ہنسنے کی آواز آئی ۔ میں نے پلٹ کر دیکھا ۔ وہ میرے پیچھے کھڑی اپنے گیلے بال نچوڑ رہی تھی ۔ غالبادہ نہا کر آئی تھی ۔ " رکھو ... " وہ ہنستے ہوئے بولی ۔ " دریا کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔ جاؤ تم بھی نما آؤ ۔ "
میں جلدی سے اٹھا اور دریا کی طرف بڑھ گیا ۔ اب شام کا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ دریا کا پانی بہت
ھنڈا تھا۔ میں نے خوب اچھی طرح غسل کیا نہانے سے تکان کافی حد تک دور ہو گئی تھی ۔ واپس آکر دیکھا تو سدھار نگنی کسی درخت کے چوڑے چوڑے پتے چٹان پر بچھائے ان پر دو روٹیاں اور مچھلی کا اچار رکھے بیٹھی ، میرا انتظار کر رہی تھی ہم نے چاول کی روٹی اچار کے ساتھ کھائی اور
ناریل توڑ کر ان کا پانی یا ۔ پھر سدھا رنگنی چبوترے کو صاف کرتے ہوئے بولی " رگھو ! تم بھی یہیں سوؤ
گے۔ یہیں ، سدھا! میں نے جلدی سے کہا۔ " سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے تمہارے سانپ
بیٹے سے ، خوف آتا ہے ۔"
سدھانے فورا اپنی ساڑھی سے سانپ نکال کر میری طرف بڑھایا ۔ " یہ دیکھو تمہیں کچھ
نہیں کہے گا۔" سانپ نے ہلکی سی پھنکار ماری اور میں جلدی سے چبوترے کے دوسری سرف کود گیا ۔ سدھارنگنی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی ۔ میں نے ایک درخت کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ " میں اس سے
درخت پر سو جاؤں گا ۔ " اس درخت کی شاخیں کم بلندی سے شروع ہو گئی تھیں ۔ سدھانے مجھے بہت مجبور کیا کہ میں چبوترے ہی پر سوؤں لیکن میں نے جھلاہٹ کے ساتھ کیا ۔ " نہیں میں درخت پر سووں گا بس
کہ جو دیا ۔" سدھارنگنی خاموش ہو گئی ۔ تھوڑی دیر بعد وہ چبوترے پر لیٹی ہوئی بولی۔ " رکھو ا تم مجھے مار بھی لوگے تو میں کچھ نہیں کہوں گی ۔ تم میرے پتی ہو اور پتی دیوتا سمان ہوتا ہے ۔ اچھا جہاں تمہاری مرضی ہے سو جاؤ ۔ میں اپنے سانپ بیٹے کو اپنے پاس چھوڑ دوں گی ۔ یہ میری حفاظت کرتا رہے گا ۔ میں نے درخت کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ " بھگوان کے لئے اسے میرے پاس نہ بھیج دینا
میں اپنی رکھشا خود کر سکتا ہوں ۔ "
سدھارنگنی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں درخت پر چڑھ گیا۔ ایک جگہ کافی موٹا دو شاخہ بنا تھا۔ میں اس پر ٹانگیں پھنسا کر بیٹھ گیا اور ایک موٹی سی شاخ سے ٹیک لگا لی ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر سری رنگم اسٹیشن کے آس پاس ، ناگ کی پوجا کرنے والا قبیلہ آباد نہ ہوا تو سفر کے اخراجات کے لئے رقم کہاں سے آئے گی ؟ مجھے اپنے گلے میں پڑے ہوئے مقدس تعویذ کا خیال آیا ۔ میں اس کی مدد سے کسی بھی ہندو ساہوکار کی دکان پر جا کر اسے حکم دے سکتا تھا کہ وہ اتنی رقم میرے حوالے کر دے لیکن مقدس نقش کے بزرگ نے مجھے خبردار کیا تھا کہ اگر میں نے مقدس نقش سے بد دیانتی کا کوئی کام لیا تو اس کا اثر زائل ہو جائے گا اور مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ چنانچہ اب لے دے کر صرف سدھا رنگتی ہی سے کوئی امید کی جا سکتی تھی ۔
میں نے شاخوں کے بیچ سے آسمان کی طرف دیکھا۔ تارے نکل آئے تھے ۔ اب دریا کا پاٹ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے دائیں جانب چٹان پر نگاہ ڈالی ۔ وہاں مجھے سدھا رنگنی کا ایک دھندلا سا ہیولا ہی دکھائی دیا ۔ تھوڑی دیر تک میں اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر مجھے بھی نیند
آگئی ۔
رات بھر مچھروں نے بے پناہ تنگ کیا اور میں بار بار سوتاجاگتا رہا ۔ آدھی رات کے بعد جنگل کی طرف سے شیر کے دہاڑنے کی آواز بھی وقفے وقفے سے سنائی دیتی رہی مگر شیر اس طرف نہیں آیا ۔ اسی طرح رات گزر گئی ۔
دن کی روشنی ہوئی تو پرندوں کی چہچہاہٹ نے مجھے جگا دیا ۔ میری نظر چبوترے کی طرف گئی۔
سدھا رنگی وہاں موجود نہیں تھی۔ میں درخت سے اتراہی تھا کہ سدھارنگن آگئی ۔ رکھو درخت پر تمہیں کسی بھوت پریت نے تنگ تو نہیں کیا ؟" اس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ میں نے دریا کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ مچھروں نے رات بھر سونے نہیں دیا ۔
0 Comments