Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

Kashmir ke Sarfarosh urdu stories part 4

                         Kashmir ke Sarfarosh urdu stories part 4





 دریا کنارے پہنچتے پہنچتے دن کی روشنی کم ہو گئی۔ سورج دریا پار کے اونچے گھنے دیودار کے درختوں کے پیچھے اتر گیا

 تھا۔ دریا کا پاٹ زیادہ چوڑا تو نہیں تھا لیکن پھر بھی سدھا اسے تیر کر پار نہیں کر


سکتی تھی۔ ہم دریا کے ساتھ ساتھ مغرب کی سمت چلنے لگے ۔


کافی آگے جا کر ایک چھوٹا سا گھاٹ آگیا ۔ وہاں ایک کشتی بندھی ہوئی تھی جس میں ایک بوڑھا ملاح بينما ناریل پی رہا تھا۔ میرے پاس کچھ رقم موجود تھی۔ میں نے کرایہ ادا کیا اور ملاح نے ہمیں دریا پار اتار دیا ، اس ملاح کی زبانی معلوم ہوا کہ اس جنگل میں رات کو سفر کرنا بے حد خطر ناک ہوتا ہے ۔ اس جنگل میں سانپ ، چیتے اور شیر بہت ہیں ۔ بہتر ہے کہ رات یہیں دریا کنارے گزارو

صبح کو سفر کرنا ۔ "

اس نے بتایا کہ جنگل کے پار ریلوے لائن ہے ، اس پر چار کوس آگے سوئی رقم کا ریلوے

اسٹیشن آتا ہے ۔ میں نے سدھا رنگنی کو مشورہ دیا کہ ہمیں بوڑھے ملاح کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے رات کو جنگل میں سفر نہیں کرنا چاہئیے ... لیکن اسے اپنے سانپ بیٹے پر بہت بھروسہ تھا ۔ اس نے کہا کہ اس کے سانپ بیٹے کی موجودگی میں کوئی درندہ یا سانپ ان کے قریب نہیں پھٹک سکتا ....

لیکن اس کے باوجود میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا ۔ کنارے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک عمودی چٹان کے نیچے ایک چھوٹا سا قدرتی چبوترہ بنا

ہوا تھا ۔ ہم نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کیا ... ہم گاؤں سے ایک تھیلے میں چاول کی چار روٹیاں " مچھلی کا اچار اور چار ناریل ساتھ لے آئے تھے ۔ میں تھیلا چبوترے پر رکھ کر نیم دراز ہو گیا ۔ سدھا

رنگنی میرے قریب بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے ساڑھی سے اپنے سانپ بیٹے کو باہر نکال لیا۔ میں پرے ہٹ گیا۔ وہ

مسکرائی ۔ ”ارے ، تم اس سے ڈرتے ہو۔ یہ تمہارا بھی تو بیٹا ہے ۔ " میں نے دل ہی دل میں اس کے سانپ بیٹے کو کوسا ... اور بظاہر مسکراتے ہوئے کہا۔ " نہیں.

میں اس سے کہاں ڈر رہا ہوں ۔ " سدھار نگنی نے ایک فقہہ لگایا اور اپنے سانپ بیٹے کو لے کر دریا کی طرف چلی گئی۔ میں نے

طمینان کی سانس لیا ۔ مجھے اس کی سانپ جیسی چمک دار آنکھوں سے بہت خوف آتا تھا اور اب تو اس کے پاس ایسے زہریلا سانپ بھی تھا ۔ خدا جانے کب غصے میں آکر ڈس لے ۔ سانپ کا کیا اعتبار ۔

میں اپنے آئندہ کے پروگرام پر غور کرنے لگا ۔ ہم کرناٹک میں داخل ہونے والے تھے یا پتہ نہیں داخل ہو گئے تھے ۔ اس کے آگے میری منزل ، صوبہ سوراشٹر تھا جہاں مجھے سدھا رنگنی کو اس

کے ماں باپ کے حوالے کر کے ، راجستھان کی طرف نکل جانا تھا جہاں سے مجھے پاکستان کا عبور کرنا تھا۔ وہ ریگستانی اور غیر آباد علاقہ تھا .... وہاں سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہونا میرے لئے

 جھاڑیوں کے قریب ہی سانپوں کی دو پتھر کی مورتیاں نظر آئیں ۔ یہ سانپ پتھر کو تراش کر


بنائے گئے تھے جو پھن اٹھائے چھوٹے چھوٹے چبوتروں پر بیٹھے تھے ۔


رکھو! اس گاؤں کے لوگ ناگ دیوتا کی پوجا کرتے ہیں۔ ہمیں یہاں سے بہت رکھشا ملے گی۔ سوراشٹر تک ہمارا ریل کا بھاڑا نکل آئے گا ۔ " گاؤں کے باہر ندی پر کچھ عورتیں پانی بھر رہی تھی ۔ سدھار نگنی نے اس دوران میں اپنے جسم کے گرد لپٹا ہوا سانپ نکال کر ہاتھ میں لے لیا تھا ۔ اس کا بیٹا کالا سانپ پھن اٹھائے ہوئے تھا۔ پانی بھرتی عورتوں نے سدھا کے ہاتھ میں سانپ دیکھا تو انہوں نے وہیں ہاتھ جوڑ کر اسے پر نام کیا اور پلٹ کر گاؤں کی طرف بھاگیں ۔


گاؤں صرف چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ وہاں سب کو معلوم ہو گیا کہ سانپ ماتا آئی ہے۔ گاؤں کی عورتیں مرد اور بچے "سانپ ماتا کی جے ہو ، سانپ ماتا کی جے ہو " کے نعرے لگاتے باہر آگئے۔

سدھا رنگنی نے سانپ والا بازو اوپر اٹھایا اور تامل زبان میں بولی ۔

میں سانپ ماتا ہوں یہ سانپ کے پتا ہیں ۔ میرے سانپ بیٹے کے درشن کرو ۔ " سدھار نگنی نے سانپ کو ہاتھ سے چھوڑ دیا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی وھاں ندی

کنارے گھاس پر بیٹھ گئی ۔ سانپ بیٹا کنڈلی مارے بیٹھا، پھن اٹھائے جھوم رہا تھا ۔ اس کا رخ اپنی ماتا کی جانب تھا ۔ گاؤں کے لوگ ، اونچی آواز میں سانپ بیٹے کی مداح میں اشلوک گانے لگے ۔ عورتیں گھروں سے ناریل اور چاول تھالیوں میں رکھ کر لے آئیں اور یہ تھالیاں ہمارے آگے رکھ دی گئیں ۔ سدھا رنگنی نے گاؤں کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ... "سانپ ماتا سوراشٹر کے مہا

ناگ مندر کے درشنوں کو جا رہی ہے ۔ ہمارے لئے چاندی اور تانبے کے سکے لاؤ ۔ ہمیں ریل گاڑی

کے لئے بھاڑا چاہئیے"۔

ایک بوڑھا دیہاتی ہاتھ باندھ کر آگے بڑھا اور بولا ۔ سانپ ماتا ہمارے پاس صرف ناریل اور چاول ہی ہیں ۔ ہم غریب لوگ ہیں ، ہمارے پاس چاندی اور تانبے کے سکے کہاں ... ہمیں معاف کر دینا

سانپ میا ! ہم غریب لوگ ہیں ۔ "

سدھا رنگنی نے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا کہ جانے دو ۔ ہم کوئی

دوسرا بندوبست کر لیں گے ۔ اب ہمارا وہاں رکھنا فضول تھا ۔ میرے ایما پر سدھا رنگنی نے اس سے یہ

معلوم کر لیا کہ ریلوے لائن کہاں ہے ۔ یہ ریلوے لائن ! دریا پار کا ایک جنگل عبور کرنے کے بعد آتی تھی ۔ اس ریلوے لائن پر آگے جا کر ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا ۔ ہم اس گاؤں سے نکل کر دریا کی طرف روانہ ہو گئے ... وہاں سدھا رنگنی نے اپنا لباس تبدیل کر لیا تھا ۔ ایک عورت نے اسے گیروے رنگ کی

کالی اپنی والی دھوتی نما ساڑھی پیش کی تھی ۔

coming soon next part 


Popup Iframe Example

Post a Comment

0 Comments